اَعْوان {اَع + وان} (عربی
اسم نکرہ
..............................
معانی. مدد دینے والے، دوست، احبا، رفقائے کار جو کام پڑنے پر ہاتھ بٹائیں (اکثر انصار کے ساتھ مستعمل)۔
پاکستان میں سب سے بڑا قبیلہ.....اعوان
بشکریہ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان
اعوانوں کو کم از کم پاکستان میں سب سے بڑا قبیلہ مانا جاتا ہے جو خیبر سے کراچی و بلوچستان پنجاب تک میں آباد ہے۔ سندھی‘ بلوچی‘ ہندکو اور پشتو بولنے والے اعوان بھی جگہ جگہ مل جاتے ہیں۔ کراچی میں محبت حسین اعوان اس موضوع پر بڑا کام کر رہے ہیں اور بڑی بڑی کتابیں اور مشہور اعوانوں کی فہرستیں چھپواتے رہتے ہیں۔ میں (ڈاکٹر ظہور احمد اعوان)ذاتی طور پر قبیلہ جاتی اور ذات پات کے سسٹم سے گریزاں ہوں مگر چونکہ میرے نام کے ساتھ اعوان قلمی طور پر جڑ گیا ہے اس لئے اکثر قارئین مجھ سے اعوان تاریخ کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔ اب میں علامہ یوسف جبرئیل کی کتاب سے چند اقتباسات درج کرتا ہوں جو خالص ان لوگوں کے لئے ہیں جو اعوانوں کی اصلیت جاننا چاہتے ہیں۔
برادری اور قومیت
انگریزی حکومت نے متحدہ ہندوستان کے لوگوں کے دلوں سے قومی احساس کے ساتھ اسلاف کی یاد بھی محو کر دی تھی۔ کچھ حالات نے بھی اس طرح کا پلٹا کھایا ہے کہ برادری اور قومیت کا احساس لوگوں کے دلوں میں پھر سے جاگ اٹھا ہے اور پاکستان کی اکثر برادریاں اپنی تنظیم میں مصروف ہیں کیونکہ اس طرح برادری میں باہمی اتحاد و یگانگت اور اجتماعیت پیدا ہوتی ہے‘ برادری کے غریب اور مستحق افراد کی مدد کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں‘ چونکہ اس جدید جمہوریت کی تعداد کے لئے ماحول میں جس کے دستور کے مطابق حصول اقتدار میں کامیابی کا انحصار ووٹوں کی اکثریت پر ہے۔
اس لئے برادری کے سیاسی شعور کی تربیت اور برادری کی سیاسی تنظیم اور ذہنی یکجہتی کی ضرورت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی عین عنایت ہے کہ مندرجہ بالا عوامل کے علاوہ مادہ پرستی کے اس دور میں مادی جدوجہد اور پیش رفت کے ساتھ ساتھ اعوان برادری پر اس کی تاریخی روایت کے مطابق ایک اہم فریضہ اور بھی عائد ہوتا ہے اور وہ ہے دین اسلام کی تبلیغ و تشہیر اور دین اسلام کی تبلیغ کے معنی ہیں‘ نہ صرف زبانی تبلیغ کرنا بلکہ اسلامی زندگی کا عملی نمونہ بھی پیش کرنا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اعوان قبیلہ کے بزرگ اسلاف نے اگرچہ سرزمین ہند (ہندوپاک) میں جہاد فی سبیل اللہ کے بے شمار معرکوں میں حصہ لیا لیکن ان کا بنیادی مقصد اس ملک میں تبلیغ اسلام تھا اور یہ بھی ضروری ہے کہ اعوان برادری کو قرآنی ہدایت ’’کل مومن اخوۃ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی غیر اعوان مسلمان برادری کے خلاف تعصب نہ برتنا چاہئے بلکہ سب مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھنا چاہئے۔ظاہر ہے کہ جو کوئی بھی تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرے گا وہ اسلامی فضا میں ہی بات کرے گا۔
محمد ابن حنیفہ رضی اللہ عنہ
واضح رہے کہ اعوان قبیلہ کے جد اعلیٰ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزند اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بازوئے شمشیر امام محمد ابن حنیفہ رضی اللہ عنہ معروف بہ امام حنیف ہیں‘ جن سے پوچھا گیا کہ آپ تو ہمیشہ ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ شریک جنگ رہتے ہیں لیکن حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریک جنگ نہیں ہوتے تو جواب میں فرمایا کہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بازو ہوں جبکہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی دو آنکھیں ہیں۔
جب سانحہ کربلا کے بعد جناب حضرت زین العابدین ولد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دلبرداشتہ ہو کر گوشہ نشین ہو گئے تو امام حنیف رضی اللہ عنہ ہی امام ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ ہی نے وہ تحریک چلائی جس کے نتیجے میں قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کے سر قلم کئے گئے۔ آپ کے بیٹے عبداللہ ہاشم ایک نادرہ روزگار شخصیت کے حامل تھے‘ ان کی شخصیت میں اتنی کشش اور ان کی گفتگو میں اتنی جاذبیت تھی کہ جو شخص بھی ان کی گفتگو سنتا ان کا گرویدہ ہو جاتا حتیٰ کہ ان کی شہرت کا چرچا اموی خلیفہ تک جا پہنچا اور انہوں نے اپنے دارالحکومت دمشق میں ان سے ملاقات کی اور انہیں مہمان رکھا پھر ان کی مدینہ واپسی پر اپنا ایک خاص آدمی ان کے پیچھے لگا دیا جس نے ایک منزل پر آپ کو بے انتہا ظاہری عقیدت مندی اور لجاجت سے شربت کا گلاس پیش کیا جسے نوش کرتے ہی جناب عبداللہ ہاشم جاں بحق ہو گئے اور چونکہ آپ کی کوئی اولاد نہ تھی اس لئے وراثت آپ کے بھتیجے کی طرف منتقل ہو گئی۔
جب بالآخر ابو مسلم خراسانی نے علویوں کے نام پر بنی امیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے ان کو شکست سے دوچار کر دیا تو علویوں کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عباسیوں نے (جو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے تھے) اپنی ہوشیاری سے تخت خلافت پر قبضہ کر لیا‘ اس پر جب علویوں نے احتجاج کیا اور اصرار نے شدت پکڑی تو عباسیوں نے ان پر تشدد کی راہیں کھول دیں اور ان کا بلاد‘ عراق و عرب میں رہنا ناممکن ہو گیا لہٰذا سارا علوی خاندان وہاں سے منتقل ہو گیا۔
حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اولاد نے بخارا‘ ہمدان اور مشہد وغیرہ میں قیام کر لیا جیسا کہ آج بھی بخاری‘ ہمدانی اور مشہدی سادات ہر جگہ نظر آتے ہیں مگر امام حنیف کی اولاد نے آگے بڑھ کر ہرات کے قلعے پر قبضہ کر لیا اور جب سلطان محمود غزنوی نے کفرستان ہند پر حملے کئے تو اس کے لشکر کے مدار المہام اور سالار اعلیٰ یہی لوگ تھے کہ ان وقتوں میں اعوان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہونے کی وجہ سے بے حد احترام کے وارث تھے اور بادشاہ ان کے ساتھ تعلق قائم کرنے کو باعث فخر و برکت تصور کرتے تھے چنانچہ سلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے دوران سالار ساہو جو سپہ سالار اعظم تھے اور ان کے بھائی قطب شاہ کے نام سے بہت مشہور ہیں
سومنات کے حملے کے بعد سالار مسعود غازی جو سالار ساہو کا بیٹا تھا اپنے لشکر کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور بھڑوچ کے مقام پر ایک راجہ سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور وہیں دفن ہوا بعد میں دلّی کے بادشاہ محمد تغلق نے قبر پر ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کیا‘ وہاں اب بھی ہر سال بہت بڑا عرس ہوتا ہے اور سالار مسعود غازی چونکہ نوجوان اور کنوارا تھا لہٰذا اس نسبت سے سوانگ بھرے جاتے ہیں اور وہاں رواں صدی کی ابتدا تک ہر سال سالار شہید کے نام کے کونڈے پکائے جاتے تھے حتیٰ کہ لاہور شہر میں بھی یہ رسم ادا کی جاتی تھی۔ احمد آباد اور گجرات اور گرد و نواح کے صوبوں میں سالار شہیدرحمۃاللہ علیہ کا وہی مقام (عوام کے نزدیک‘ ہے جو پنجاب میں حضرت حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمۃاللہ علیہ کا ہے۔
حضرت قطب شاہ رحمۃ اللہ علیہ
اعوان قبیلہ کا جذبہ جہاد اب بھی برقرار ہے‘ 1965ء کی جنگ میں ہر محاذ پر جو کمانڈر تھا وہ اعوان تھا۔ حضرت قطب شاہ رحمۃ اللہ علیہ جو سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ جہاد پر تھے جب سلطان نے واپسی اختیار کی تو سلطان سے اجازت لے کر کفرستان ہند میں تبلیغ اسلام کے ارادے سے کالاباغ میں مقیم ہو گئے مگر گردونواح کے راجاؤں نے ان پر حملہ کر دیا‘ فتح حضرت قطب شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو ہوئی اور اسلام نے پھیلنا شروع کیا‘ کالاباغ میں جو اعلیٰ فیملی ہے اور جس کے مشہور و معروف ممبر ملک امیر محمد خان نواب کالاباغ مرحوم تھے۔
گوہر شاہ رحمۃ اللہ علیہ عرف گورڑا
اعوان خاندان کے پہلے بزرگ وادی سون سکیسر میں داخل ہوئے ان کا نام گرامی گوہر شاہ رحمۃ اللہ علیہ عرف گورڑا تھا‘ خوشاب سے آنے والی سڑک جب نورے والے کے مقام سے سون کے پہاڑ پر تین میل اوپر چڑھتی ہوئی پہاڑ کے اوپر وادی سون سکیسر کے منہ پر پہنچتی ہے وہاں ایک مقام ہے جسے دادا گورڑا کہتے ہیں کیونکہ وہاں پر دادا گورڑا (گوہر شاہ) نے قیام کیا تھا اور جو بھی شخص اس راستے وادی سے تھل کے علاقے میں اترتا یا تھل سے اوپر وادی میں داخل ہوتا تھا رسماً ایک پتھر وہاں پر پھینک دیتا تھا حتیٰ کہ وہاں پتھروں کا ایک ٹیلہ بن گیا تھا بالآخر جب وہاں بسوں کے لئے سڑک کی تعمیر ہوئی تو سڑک بنانے والوں نے اس ٹیلے کا ایک بڑا حصہ ہٹا دیا
اعوانوں کی وجہ شہرت
رفتہ رفتہ اعوان ساری وادی پر قابض ہو گئے اور آج تک وادی سون سکیسر کو اعوانوں کے گڑھ کی حیثیت حاصل ہے۔ اعوان پابندیٔ شریعت اور حفظ قرآن حکیم کے لئے مشہور رہے ہیں‘ اعوان قبیلہ نے بے شمار اور بہترین حافظ قرآن پیدا کئے‘ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ اعوانوں کے علاقہ کو اعوان کاری اسی لئے کہتے ہیں کہ وہاں کے قاری اچھے ہیں‘ ٹھیک ہے اعوان کاری کے قاری اچھے ہیں لیکن اعوان کاری کے معنی ہیں اعوانوں کی آبادی کا علاقہ بعینہ اس طرح جس طرح کہ پٹھانوں کے علاقے کو پٹھان ولی کہتے ہیں اور اگرچہ پٹھانوں میں ولی بہت ہوتے ہیں اور بڑے مرتبہ کے ولی ہوتے ہیں لیکن پٹھانوں کے علاقے کو پٹھان ولی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پٹھانوں کی آبادی کا علاقہ ہے۔
اعوان میں بے شمار اولیاء ہوئے ہیں صرف وادی سون سکیسر کے چھوٹے سے علاقے میں چار سلطان العارفین کے مزار ہیں حضرت سلطان انب رحمۃ اللہ علیہ شریف‘ حضرت سلطان سخی محمد خوشحال رحمۃ اللہ علیہ ‘ حضرت سلطان حاجی احمد رحمۃ اللہ علیہ صاحب اور حضرت سلطان مہدی رحمۃ اللہ علیہ صاحب۔ ان کے علاوہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ بھی اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان کے والد ماجد حضرت بازید رحمتہ اللہ علیہ شاہجہان کے زمانے میں موضع انگہ سے ہجرت کر گئے‘ انگہ مولانا غلام مرشد اور احمد ندیم قاسمی کا گاؤں ہے اور جہاں پر حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اعوان قبیلہ کے لوگ علاقہ سون سے ہر طرف پھیل گئے اور وہاں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیا حتیٰ کہ خطہ کشمیر بھی اس سعادت سے محروم نہیں ہے۔